Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ڈنر کے بعد وہ سب لیونگ روم میں براجمان تھے، مسز عابدی نے ملازمہ کو گرین ٹی لانے کی ہدایت کی اور وہ سب باتوں میں مصروف ہو گئے تھے، یہاں وہ سب لوگ اماں جان کے گرویدہ ہو گئے تھے، اماں جان ہر فن مولا قسم کی خاتون تھیں کھانا پکانا، سلائی، کڑھائی بنائی میں وہ طاق تھیں دنیا جہاں کے کھانوں کی تراکیب اور گھریلو ٹوٹکے انہیں ابھی بھی ازبر تھے، مسز عابدی اور ان کی بیٹیاں اماں کو گھیرے بیٹھی تھیں، عابدی صاحب بھی اپنے بڑھتے ہوئے پیٹ کیلئے کوئی ٹوٹکا معلوم کرنے کیلئے اماں کے قریب بیٹھے تھے۔
فیاض صاحب کے چہرے پر اطمینان و مسرت تھی اپنی اماں کی اتنی شاندار پذیرائی پر جب کہ صباحت اور دونوں بیٹیاں سخت بور ہو رہی تھیں، عادلہ کی نگاہیں تو آتے ہی یہاں شیری کے سحر انگیز سراپا کی نگرانی پر مرکوز تھیں، اس کی حرکات و سکنات پر ان کی گہری نظر تھی۔


وہ کھانے کی ٹیبل تک جبراً ان کے ساتھ رہا اور کھانا کھاتے ہی وہاں سے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی عادلہ کو بے کلی لگ گئی تھی صباحت نے بھی نوٹ کیا تھا آج عادلہ فیروزی و سنہری رنگ کے اسٹون ورک سوٹ میں بہترین میک اپ اور جیولری میں بے حد کیوٹ لگ رہی تھی وہ سوچ رہی تھی آج شیری عادلہ کے حسن کو ضرور سراہے گا مگر اس کا لیا دیا کچھ کچھ بے زار کن انداز ان کا بھی دل مضطرب کر گیا۔


”منہ مت پھلا کر بیٹھو، اس طرح کرنے سے تمہارا چہرہ دگنا ہو جاتا ہے۔“ انہوں نے موقع دیکھتے ہی عادلہ سے سرگوشی میں کہا۔
”پھر کیا ممی… آپ دیکھ رہی ہیں نا سب کیا ہور ہا ہے؟“ اس نے فوراً ہی چہرے کو نارمل کرتے ہوئے اسی طرح سرگوشی کی۔
”ہاں دیکھ رہی ہوں، ایک تو بڑھیا ہر جگہ اپنی مشوروں کی دکان چمکانے بیٹھ جاتی ہے ذرا عقل نہیں ہے کس کو اور کیا بتا رہی ہوں۔
”انہیں کرنے دیں جو وہ کر رہی ہیں آپ کے کڑھنے سے وہ باز نہیں آئیں گی، آپ یہ بتائیں شیری کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے، وہ تو ماش کی دل کی طرح اکڑا ہوا ہے۔“
”شاید وہ اپنے بیڈ روم میں ہے تم وہاں جاؤ۔“
”لیکن… میں وہاں جا کر کیا کروں گی، اس کا موڈ آف ہے۔“
”پری کے نہ آنے کے باعث اس کا موڈ آف ہوا ہے اور تمہیں بے حد ہوشیاری سے اس کو پری سے اس حد تک بدظن کرنا ہے کہ وہ خواب میں بھی اس کو دیکھنا پسند نہ کرے۔
”مگر دادی اور پاپا میری غیر موجودگی کو یہاں محسوس کریں گے اور…“
”تم جاؤ بے فکر ہو کر اماں جان کی باتوں میں ایسا جادو ہوتا ہے لوگ محو ہو جاتے ہیں، کسی نے پوچھا بھی تو میں سنبھال لوں گی۔“ ماں کی سپورٹ اس کو حاصل تھی وہ بے حد اعتماد بھرے انداز میں وہاں سے اٹھی تھی اس وقت عائزہ سے اس کی نگاہیں ملی تھیں۔
”میری تمام نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں، وش یو گڈ لگ۔
“ عائزہ نے مسکراتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سرگوشی کی اس کا انداز سو فیصد تمسخرانہ و چڑانے والا تھا۔
عادلہ کو سخت ترین توہین کا احساس ہوا مگر اس وقت اس سے الجھنے کا ٹائم نہیں تھا وہ اسے گھورتی ہوئی وہاں سے باہر نکل آئی، لیونگ روم سے باہر کامن تھا اور کامن سے دو راستے نکلتے تھے، ایک طرف سیڑھیاں تھیں جو اوپر جا رہی تھیں اور دوسری طرف بھی سیڑھیاں تھیں جو نیچے جا رہی تھیں کیونکہ وہ لوگ بیک ڈور سے اندر آئے تھے اور اس راستے سے اس نے شیری کو یہاں آتے ہوئے دیکھا تھا۔
”بی بی صاحبہ! کس چیز کی ضرورت ہے آپ کو؟“ وہ کھڑی سوچ رہی تھی کہاں جائے اوپر یا نیچے تب ہی عقب سے ایک دروازہ کھلا اور ملازم نے مودبانہ لہجے میں اس سے پوچھا۔
”وہ… شیری صاحب کا روم کہاں ہے؟“
”جی آیئے میں آپ کو بابا کے روم تک چھوڑ آتا ہوں۔“
”شیری اپنے روم میں ہی ہیں۔“ وہ اس ملازم کے پیچھے قدم بڑھاتی ہوئی استفسار کرنے لگی۔
”جی بابا اپنے روم میں ہیں۔“ وہ ملازم کے پیچھے چلتی ہوئی اوپر آ گئی تھی، سیڑھیوں سے لے کر کوریڈور پورا امپورٹڈ کارپٹ سے ڈھکا ہوا تھا اور پلانٹس بڑے مہارت سے سجائے گئے تھے، اس پورشن کی ڈیکوریشن بے حد خوبصورت تھی۔
”یہ بابا کا روم ہے بی بی صاحبہ!“ ملازم ایک دروازے کے پاس رک کر بولا۔
”اوکے، تم جاؤ۔“ اس نے نخوت بھرے انداز میں کہا ملازم کسی روبوٹ کی مانند واپس چلا گیا اور اس نے پرس کھول کر شیشہ نکالا اور اپنا میک اپ ڈارک کرنے لگی۔
###
پری کو ان لوگوں کے ساتھ نہ پاکر اس پر سخت ترین بددلی چھائی تھی جیسے تیسے ڈنر تک وہ ان کے ساتھ رہا تھا پھر ڈنر کے بعد معذرت کرتا ہوا اپنے بیڈ روم میں آ گیا اور جوتوں سمیت بیڈ پر اس طرح لیٹا تھا گویا کوئی کچی مٹی کی دیوار اپنے ہی بوجھ سے ڈھے جائے۔ اس کی نگاہوں میں پری کا دلکش چہرہ تھا۔ پری کے فوٹو گراف مس ہو گئے تھے مگر اس کے دل کی البم میں اس کی تمام تصاویر موجود تھیں اور وہ تنہائی میں آنکھیں بند کرتا تو وہ تصاویر مجسم ہو کر سرسرانے لگتی تھیں اس کے اردگرد۔
”میں جانتا ہوں تم جان بوجھ کر اپنی نانو کے ہاں گئی ہو پری! کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا؟ کیوں مجھ سے بھاگتی ہو تم؟ کیوں اتنا تڑپا رہی ہو مجھ کو، کیا چاہتی ہو… کیا چاہتی ہو تم؟“ وہ سر ادھر ادھر پٹختے ہوئے جنونی انداز میں بڑبڑا رہا تھا۔ معاً دروازے پر اس کو دستک محسوس ہوئی تھی اور وقفے وقفے سے ہو رہی تھی دستک بہت دھیرے دھیرے ہو رہی تھی۔
اس نے خونخوار نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر دروازہ وا کیا تھا غصے سے سامنے کھڑی عادلہ کو دیکھ کر اس کا اٹھا ہوا ہاتھ اٹھا ہی رہ گیا تھا، سامنے کھڑی عادلہ کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا تھا، شیری کو اس خونخوار انداز میں دروازہ کھولتے دیکھ کر وہ سخت نروس تھی۔
”اوہ آپ! کم ان مس عادلہ!“ وہ اعتماد سے گویا ہوا۔
”سوری شاید میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا ہے؟“ اس کے راستہ دینے پر وہ اندر آتے ہوئے شرمندہ لہجے میں بولی۔
”ہوں، ڈسٹرب تو کیا ہے آپ نے“
”میں واپس چلی جاتی ہوں۔“ اس کی صاف گوئی اس کو بوکھلا گئی۔
”اب ڈسٹرب تو کر دیا ہے آپ نے بیٹھ جایئے، کوئی بات نہیں، ویسے بھی آپ ہماری مہمان ہیں اور مہمان سے اچھا برتاؤ کرنا ہمارے مینرز ہیں۔“ اس نے بولتے ہوئے مسکرا کر عادلہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر خوف اور شرمندگی تھی وہ اندر آکر بیٹھی نہیں تھی۔
”شکریہ! میں نے سوچا آپ کی طبیعت کا پوچھ لوں۔“
”پلیز آپ بیٹھے تو سہی۔“ اس نے دل فریبی سے مسکراتے ہوئے کہا، وہ صوفے پر بیٹھی تو وہ بھی اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا۔
”اس لئے میں ملازم سے پوچھ کر یہاں تک آئی ہوں۔“
”میری طبیعت پوچھنے؟ لیکن میں ٹھیک ہوں، کس نے کہا میں بیمار ہوں؟“
”مجھے تو آپ کی طبیعت ٹھیک محسوس نہیں ہو رہی ہے جب سے میں آئی ہوں آپ کو مسلسل پریشان دیکھ رہی ہوں، آپ نے ڈنر بھی ڈھنگ سے نہیں کیا، میں سب نوٹ کر رہی تھی۔
“ عادلہ اس کو نارمل دیکھ کر خود کو سنبھال چکی تھی اور بڑے اپنائیت بھرے لہجے میں اس سے مخاطب تھی۔
”آپ نوٹ کر رہی تھیں، خیر آپ میرے لئے کیوں اتنی ہمبل ہو رہی ہیں؟“ وہ تعجب خیز لہجے میں گویا ہوا۔
”یہ آپ مجھ سے ابھی نہ پوچھیں تو بہتر ہے شیری! میں جواب نہ دے پاؤں گی۔“ اس نے اس کی طرف دیکھتے لگاوٹ بھرے لہجے میں کہا تھا۔ شیری ان نگاہوں کا مفہوم اچھی طرح جانتا تھا، یہ کھیل کھیلنے میں وہ ماہر کھلاڑی تھا مگر ابھی اس کا قطعی موڈ نہیں تھا کھیلنے کے لیے۔
”اوکے، میں آپ کو پریشرائز نہیں کروں گا، دراصل میں کسی پر بھی اپنی مرضی لاگو کرنا پسند نہیں کرتا۔“
”افوہ! یہ تو ہاتھوں سے چکنی مچھلی کی طرح پھسلے جا رہا ہے، کیا کروں؟ کس طرح اس کو قابو میں لاؤں؟
”آپ تو خاموش ہو گئی ہیں میری بات مائنڈ تو نہیں کی آپ نے؟“ اس کو خاموش دیکھ کر شیری کو کہنا پڑا۔
”ارے نہیں، ہماری مما نے ہم سسٹرز کی ایسی پرورش کی ہے ہم کسی بھی بات کا برا نہیں مانتے، بہت کھلے دل کے ہیں ہم لوگ۔
پری میں اور ہم میں بے حد ڈیفرنس ہے اس میں بالکل بھی برداشت نہیں ہے۔“ پری کے نام پر اس کے اندر کی دنیا یک دم ہی بدلی تھی اور وہ جو عادلہ کو وہاں سے بھگانے کے چکر میں تھا آرام سے بیٹھ گیا تھا۔ پری کے نام پر اس کی آنکھوں کی روشنی دیکھ کر عادلہ بجھ کر رہ گئی۔
”رئیلی! تم میں اور پری میں بہت ڈیفرنس ہے تم پہلی ملاقات میں ہی سیدھی میری بیڈ روم میں بنا بلائے چلی آئی ہو اور ایک وہ ہے جو میری طرف دیکھنا تو درکنار مجھ سے سیدھے منہ بات تک کرنے کی روا دار نہیں ہے۔
یہی فرق ہے تم میں اور اس میں۔“
”آئیں انکل، آنٹی کے پاس چلتے ہیں۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
###
ماہ رخ جو کل تک ایک سبزی فروش کی بیٹی تھی عصمت کی چادر اس کا حصار کئے ہوئے تھی اور جب اس نے خوابوں کو پا لینے کی ضد کی اور تمام اخلاقی و سماجی بندھنوں کو توڑ کر، ماں باپ کے پیار اور اعتبار کو ریزہ ریزہ کرکے اپنی خواہشوں کے سنگ چل پڑی تو وہ ہی ہوا اس کے ساتھ جو دھوکے باز، بد احساس اور اعتماد کو کرچی کرچی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اس نے قدم قدم پر گھر والوں کو دھوکے دیئے تھے اور وقت نے اس کا کیا ہوا اس پر لوٹا دیا تھا۔
دھوکے باز کو دھوکہ مل گیا تھا۔ جس آسمان کو چھونے کیلئے اس نے سالوں ت ک ریاضت کی تھی، ہزاروں جھوٹ بولے تھے ایک رات میں، فقط ایک رات میں وہ عرش کی بلندیوں سے پاتال کی تاریکیوں میں جاگری تھی۔
ساحر خان وہ کھوٹا سکہ تھا جس پر سونے کی پالش تھی وہ بھی اس کی جھوٹی چمک دمک پر اپنا سب کچھ وار بیٹھی تھی اپنی نظر میں وہ ساحر کو دھوکا دے کر اپنی من پسند زندگی حاصل کررہی تھی۔
جو ہوا اور جس طرح کی آفت اس پر گزری تھی اس نے حواس مختل کر دیئے تھے، دل و دماغ بے قابو ہو گئے تھے، حقیقت کا ادراک ہوتے ہی اس نے پاگلوں کی طرح حارث کرمانی پر حملہ کر دیا تھا۔ مگر اس جیسے بھاری بھرکم و بیدار دماغ آدمی کے سامنے اس کے نازک سراپا کی جارحیت کوئی اثر نہ دکھا سکی تھی۔
”یو…؟“ اس نے ایک ہاتھ میں اس کے دونوں ہاتھ دبوچ کر دوسرے ہاتھ کا تھپڑ اس کے رخسار پر جڑتے ہوئے مغلظات سے نوازا تھا وہ سخت بے حس و بے رحم آدمی تھا۔
وہ پہلے ہی صدموں کے زیر اثر تھی مستزاداس بھرپور تھپڑ نے اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر دیئے تھے وہ بے ہوش ہو کر گر گئی تھی، حارث کرمانی نے ایک فاتحانہ نگاہ اس پر ڈالی اور بڑے کروفر سے اس کو پھلانگ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔
ماہ رخ کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں پایا تھا گویا اسے زندہ ہی قبر میں اتار دیا گیا تھا وہ بے حس و حرکت لیٹی رہی تھی، باہر سے زیادہ سناٹے و وحشت اس کے اندر اتر گئی تھی کل رات وہ محل میں تھی اور آج رات اس حبس زدہ بوسیدہ کوٹھری کے ٹھنڈے و کھردرے فرش پر، وہ نرم گرم بستر کانٹوں کی سیج بن گیا تھا جہاں صرف اس کا جسم ہی نہیں روح بھی گھائل کی گئی تھی۔
وہ کیچڑ میں کھلنے والا کنول تھی، بہت عجیب ہوا تھا اس کے ساتھ جب تک غربت کے کیچڑ میں رہی تھی صاف و شفاف پاکیزہ تھی۔ دولت کے گلابوں میں آئی تو پوری ہستی ہی کیچڑ بن گئی تھی۔ ایک تعفن تھا جو اس کو اپنے وجود سے اٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ایک سڑاند تھی جو اس کو بے دم کئے جا رہی تھی۔ ساری رات روتے ہوئے گزر گئی تھی۔ رونے سے تقدیر بدلتی ہے اور نہ وقت اور جو کچھ وہ کرکے آئی تھی اس کو بدلنے کیلئے دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور دعائیں مانگنے کیلئے اپنے پیاروں کی، جن میں سرفہرست ماں باپ ہوتے ہیں، جن کے لبوں سے نکلی بددعا تو ایک وقت میں قبول نہیں ہوتی مگر دعا تو ہر وقت میں قبول ہوتی ہے اور وہ اس قابل کہاں رہی تھی اس نے ماں باپ کو اس قابل کہاں چھوڑا تھا۔

   1
0 Comments